کستوری کے فوائد اور اسے حاصل کرنے کا طریقہ کستوری کی قیمت اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں
کستوری کو دل و دماغ کی ادویات میں جزو اعظم کی حیثیت حاصل ہے۔ماہرین طب نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہرمیدانی ہرن سے نافہ یا مشک کی تھیلی حاصل ہو سکتی ہے اور ایک خاص قسم کی بلی سے بھی نافہ نکلتا ہے ۔یہ خیال غلط ہے۔اس غلط فہمی کو دور کرنے اور قارئین کی معلومات کیلے اس مضمون کو پیش کیا جا رہا ہے۔
کستوری ایک نہائیت ہی قیمتی اور کار آمد مرکب ہے اسے مختلف ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مردانہ کمزوری کو دور کرنے والی اکثر ادویات میں استعمال ہوتی ہے بہت سے ملکوں میں کستوری سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔اس عطر کی خوشبو نہائیت فرحت بخش اور دیر پا ہوتی ہے۔
اصل کستوری کی پہچان
اصل کستوری کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اگر سوئی کو دھاگے سمیت لہسن کی پوتھی سے گزارا جائے اور پھر اس سوئی دھاگے کو نافے سے گزارا جائے اور لہسن کی بو غائب ہو جائے تو سمجھ لیں کہ کستوری خالص ہے۔کستوری چونکہ بہت قیمتی اور نایاب ہے اس لیے نافہ میں خشک خون یا خشک کلیجی کا سفوف نافے میں وزن بڑہانے کے لیے ملا دیا جاتا ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ ہر میدانی ہرن کے نافے سے مشک کی تھیلی برآمد ہوتی ہے۔یا پھر ایک خاص قسم کی میدانی بلی سے بھی نافہ نکلتا ہے ۔اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ مضمو ن پیش کیا جا رہا ہے۔کستوری والا ہرن خاص جنگلوں میں آٹھ سے دس فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔چین نیپال گلگت اور اور روس کے بالائی پہاڑی علاقوں میں یہ ہرن پایا جاتا ہے۔یہاں اسکی باقائدہ فارمنگ کی جا رہی ہے۔یہ بھورے رنگ کا ایک چھوٹا سا ہرن ہے۔جس کے بال بھورے اور گھا س کی طرح ہیں۔اس کے کان کافی لمبے قد ڈھائی تین فٹ اور اگلی ٹانگیں چھوٹی اور پچھلی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں۔نر ہرن کے منہ سے دو دانت نکل کر نچلی طرف بڑہے ہوئے ہوتے ہیں۔مادہ کے دانت ایسے نہیں ہوتے۔کستوری صرف نر سے نکلتی ہے۔جو اس کی ناف میں تھیلی کی شکل میں ہوتی ہے۔حلال کرنے سے پہلے فوری طور پر اسے رسی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ خون میں تحلیل نہ ہو۔کستوری کلیجی کے رنگ جیسی گاڑھے سے محلول کی شکل میں ہوتی ہے جو کہ نکالنے کے بعد چند منٹوں میں جم کر سخت ہو جاتی ہے۔ناف میں بال نماء تھیلی کو بمعہ کھال کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
کستوری والے ہرن کا شکار
اس ہرن کا شکار دشوار بھی ہے اور تجربہ کاروں کے لیے آسان بھی ۔جس جھاڑی یا چٹان کے نیچے یہ رہائش رکھتا ہے وہ جگہ نہائیت صاف ہوتی ہے۔فضلہ اپنی رہائش سے دور ڈالتاہے ۔جس چٹان کے ساتھ رہتا ہے بڑی خوبصورتی سے اسی کا حصہ بن جاتا ہے۔اور زمین کے ساتھ زمین ۔نا واقف شکاری پاس سے گزر جاتا ہے یہ یہ ہرن اپنا بسیرا جھاڑی دار جنگل میں برف کے نزدیک کرتا ہے۔تجربہ کار شکاری چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ خود نالے کے منہ پر اور ساتھیوں کو نالے کے نیچے بٹھا دیتا ہے۔ایک بالکل تہہ میں جبکہ باقی نالے کے کناروں پر بیٹھ جاتے ہیں۔تہہ والا آدمی زور سے ڈندا درخت پر مارتا ہے۔ہرن اپنی پناہ گاہ سے نکل کر بھاگتا ہے۔دائیں اور بائیں والے آدمی بھی اسے طرح ڈنڈے درخت پر مارتے ہیں اور ہرن سیدھا دہانے پہ بیٹھے شکاری کے پاس پہنچ جاتا ہے۔عام طور سے ان علاقوں میں شکاری چوری چھپے کستوری کی تلاش میں شکار کرتے ہیں۔اس کا شکار ہر ملک میں ممنوع ہے اور سخت سزا دی جاتی ہے۔کستوری چونکہ سونے سے بھی دگنے داموں بکتی ہے ا سلیے شکاری پیسے کی وجہ سے اسے مارتے ہیں۔اس ہرن کی تعداد باوجود پابندی کے بہت کم ہو چکی ہے۔چین میں باقائدہ فارم ہیں جہاں کستوری وقت مقررہ پہ سرنج کے ذریعے نکال لی جاتی ہے۔دوسرے سال پھر کستوری ناف میں پک جاتی ہے ۔تب ہرن اسے سورج سے گرم شدہ پتھروں پر رگڑتا ہے ۔حتیٰ کہ یہ پھوڑا نماء بال پھٹ کر چٹانوں پر بہہ جاتا ہ ے پرانے وقتوں میں شکاری لوگ چٹانوں سے کھر چ کر یہ بھی بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔
Musk deer
The musk deer belongs to the family Moschidae and lives in Nepal, India, Pakistan, Tibet, China, Siberia and Mongolia. The musk pod is normally obtained by killing the male deer through traps laid in the wild. Upon drying, the reddish-brown paste inside the musk pod turns into a black granular material called "musk grain", which is then tinctured with alcohol. The aroma of the tincture gives a pleasant odor only after it is considerably diluted. No other natural substance has such a complex aroma associated with so many contradictory descriptions; however, it is usually described abstractly as animalistic, earthy and woody or something akin to the odor of babies' skin
Musk has been a key constituent in many perfumes since its discovery, being held to give a perfume long-lasting power as a fixative. Today, the trade quantity of the natural musk is controlled by CITES, but illegal poaching and trading continues.